۷۔۲۔ مرکزی جامع مسجد گلگت کی تعمیر:

۷۔۲۔ مرکزی جامع مسجد گلگت کی تعمیر:

         تقریباً نصف صدی پہے ضرورت محسوس کی گئی  کہ مرکزی حیثیت کی ایک مسجد تعمیر ہونی چاہیے ۔ اس سے پہلے ہر محلے میں چھوٹی چھوٹی مساجد ہوتی تھیں جہاں انفرادی طور پر لوگ نماز بجا لاتے تھے ۔ اس دوران آغا ابوالقاسم مرجع تقلید موجود تھے ۔ ان کی سرکردگی میں گلگت میں اکابرین نے صرف ایک سال کے مختصر عرصے میں  ایک جدید طرز کی جامع مسجد تعمیر کی یہ مسجد اس زمانے کے فن کی شہکار تھی اور خوبصورت ترین مساجد میں شمارکیا جاتا تھا ۔ اس مسجد نے تقریبا ۵۰ سال مومنین کے لئے اپنے اندر جگہ دی

جب آبادی بڑھ گئ اور مسجد کی کمی محسوس ہوئی تو شہید مظلوم آقائے سید ضیاءالدین رضوی نے اس منصوبے پر غور کیا اور اکابرین شہر کا ایک اجلاس بلایا ۔ پرانی مسجد میں پندرہ سو نمازیوں کے لئے گنجائش تھی جبکہ آبادی بہت ذیادہ بڑھ گئ تھی ۔ اجلاس میں غور و خوض کے بعد مسجد سے ملحقہ زمینوں کو پہلے خریدنے کا پروگرام بنایا  گیا ۔ اس طرح مومنین کے تعاون سے کافی زمین خریدی گئی ۔ اس طرح مومنین کی ایک کمیٹی بنائی گئی جس کی سرپرستی خود آقای شہید نے کی ۔ کمیٹی میں ہر قسم کے ماہرین موجود تھے  گلگت شہر سے باہر ارد گرد کے علاقوں میں بھی مسجد کی تعمیر کی خبر پہنچائی گئی ۔ اور نئی مسجد کی تعمیر  کے لئَ منصوبے بندی شروع کی گئی ۔ نئی مسجد کا ڈیزائن ،قرار ایسوسی ایٹس اسلام آباد ،والوں نے بنایا جو معمولی ردو بدل کے بعد منظور کیا گیا ۔

اس طرح پرانی مسجد کو ۲۳ اپریل ۲۰۰۰ء سے اکھاڑنا شروع کیا گیا ۔ اور ۳ جون تک کام مکمل ہوا پھر نئی مسجد کی بنیاد یں نکالی گئیں ۔ اور ۲۰ جولائی ۲۰۰۰ء کو مسجد کا سنگ بنیاد خود آقاے نامدار نے اپنے ہاتھوں  سے رکھا ۔ اس اجتماع میں مومنین کے علاوہ اہلسنت اور اسماعیلیہ زعماء بھی موجود  تھے ۔ آقاے محترم نے  سنگ بنیاد  رکھنے کے بعد دعا کی اس کے بعد ٹیکنیکل سٹاف کے ذمے تعمیراتی کام سونپا گیا ۔ ماہرین تعمیرات میں دیامر سے تعلق رکھنے والے جناب خورشید صاحب ایکسئن بھی شامل تھے ۔

کاریگروں میں مسجد نبوی کے کی تعمیر میں خدمات انجام دینے والے ہری پور  کے جناب فیاض صاحب اور ان کی ٹیم شامل تھی ۔ مومنیں کی طرف سے ماہرین تعمیرات اور کاریگر توپہلے سے شامل تھے آقا کے حکم پر لبیک کہتے ہوے مومنیں نے  مسجد کی تعمیر کے لئے دل کھول کر امداد کی کسی نے لکڑی دیا تو کسی نے باجری ، کسی نے  پتھر دیا تو کسی نے نقدی ، کسی نے سمینٹ دیا تو کسی نے مشینری  کسی نے سریا دیا تو کسی نے تیل فراہم کیا اسی طرح نگر ، بگروٹ ، حراموش ، بارگو ،شروٹ  اور گلگت کے گرد ونواح  کے مومنین کے علاوہ سکردو  اور پاکستان کے دوسرے شہروں کے مومنین نے بھی مالی تعاون کیا ۔آقاے مظلوم اور سید شرف الدین کاظمی کے مطابق مسجد کا ۷۰ فی صد کام مکمل ہونے تک ۱۲۹،۸۷،۷۴۲ روپے خرچ ہوے تھے جبکہ مومنین کی طرف سے چندے کی شکل میں  تقریباً  ۱۳۲،۰۷۸۰۲  روپے جمع ہوے تھے اس کے علاوہ جنس کی شکل میں دی ہوئی امداد علٰحدہ ہے ۔

مسجد کا نقشہ دو منزلہ تھا مگر آقاے محترم نے لوگوں کی رائے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوے  تین منزلہ عمارت کا پروگرام بنایا۔

اس طرح مسجد کی زمینی منزل کا احاطہ۹۶× ۱۵۰  فٹ دوسری منزل کا کل احاطہ ۸۱×۱۳۲ فٹ اونچائی ۱۸ فٹ جبکہ تیسری منزل کی ۵۵×۱۰۸  فٹ احاطہ اور ۱۶ فٹ اونچائی  کے مطابق تیار ہوئی ۔ پہلی منزل میں ۵ ہزار ، دوسری منزل میں ۳۵۰۰ اور تیسری منزل میں ۱۵۰۰ نمازیوں کے لئے گنجائش رکھی گئی ہے ۔ مسجد میں پانچ  گنبد تعمیر کئے گئے ہیں ایک درمیان میں بڑی  گنبد دو  درمیانی  اور دو چھوٹے گنبد  موجود ہیں ۔

جب پہلی منزل میں  گنجائش بن گئی تو آقاے محترم نے ۲۷ اپریل۲۰۰۱ ء کوپہلی جمعہ پڑھائی ۔ اس طرح تیسری منزل کی تکمیل پر ۲۵ مئی ۲۰۰۴ء کو پہلی نماز ظہرین پڑھائی ۔ اسی وقت تقریباً  ۱۲۰۰ نمازی موجود تھے  اس روز شہداء سانحہ ۸۸ ء کی برسی بھی تھی ۔ 

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد