۸۔ شہادت :

 

          دانشمندان اور عظیم ہستیاں ہمیشہ حقیقت کے جلووں کا نظارہ کرتی رہتی ہیں اور ان حقائق کی طرف اپنے سفر کو جاری رکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں زندگی کا آغاز پیدائش اور زمین پر قدم رکھنا نہیں ہوتا ، بلکہ ان کی زندگی  کا  آغازاس وقت سے ہوتا ہے جب اپنی گم شدہ کی تلاش میں مقام عشق میں قدم رکھتے ہیں ، ظلمت کدہ سے خارج ہوتے ہیں اور رسالت کو اس دنیا میں حاصل کرتے ہیں۔


         شہید سید ضیاء الدین رضوی  ، ایسے افراد کے زمرے میں آتے تھے ۔ آپ جوانی  ہی سے بلند اہداف کے بارے میں فکر کیا کرتے تھے ۔ جس طرح اپنی تعلیمی سرگرمیوں ، درسی فعالیت  اورعلمی مباحث میں مصروف رہنے کے ساتھ ساتھ معاشرے  پر خصوصی توجہ دیا کرتے تھے وہاں سخت اور کھٹن مراحل میں ملت کی پشت پناہی بھی کیا کرتے تھے ۔ اور دشمنان دین  کے ساتھ بر سر پیکار رہتے تھے ۔

 اسلامی ممالک میں شیعیت کے خلاف گندگی کے بیج ا ستعمار نے بو یا تھا ، اور یہ بیج پاکستان میں وہابیت اور طالبان کی شکل میں پرورش پائی یہاں تک کہ گلگت بلتستان کو بھی آلودہ کر لیا  اور علاقے کی حالت روز بروز بد تر ہوتی چلی گئی شہید ،علاقے کی اس آشفتگی کو تحمل نہ کر سکے اور بغیر کسی جھجک کے اس علاقے کا رخ کر لیا  اور مکتب تشیع کے ساتھ محبت اور عشق کی بنا پر دشمنان اسلام ، وہابیت کے خلاف مکتب اہل بیت علیہم السلام کی تحفظ کے  خاطرہمت کمر بھاند لی ۔ جب  دیکھا گیا کہ مسئلہ نصاب روز بروز وسعت پیدا کر رہا ہے او رشہید بھی اپنے موقف پر مظبوط پہاڑ کی طرح ڈٹے ہوے ہیں اور کسی قسم کی طاقت سے نہیں ڈرتے۔

اگر شہید کو گرفتار کیا جاتا تو حالات ، حکومت وقت کی کنٹرول سے باہر ہو سکتے تھے اور دوسری طرف سے مشہور دہشت گرد گروہ سپاہ صحابہ کی خوشنودی کی خاطر شیعیان علی ابن ابی طالب کے مطالبات کو بھی پورا نہیں کر سکتے تھے ۔ لہذا ایک بہت بڑے خطرناک سازش کے تحت۸جنوری ۲۰۰۵ء بوقت ۱۲:۰۰  ظہر، شہید نماز ظہر کی ادائگی کے لئے مرکزی جامع مسجد تشریف لے جا رہے تھے ، کچھ دہشت گردوں نے  جو کہ راستے میں چھپ کر بیٹھے ہوے تھے  شہید پر حملہ آور ہوے اور ان کے دو محافظ عباس علی اور علی اکبر کو شہید کر دیا ، جبکہ سید ضیاء الدین رضوی اور ان کے ایک اور محافظ شدید زخمی ہو گئے اور آپ کو اسلام آباد منتقل کیا گیا مگر خدا کو یہی منظورتھا کہ آپ ۱۳ جنوری بروز جمعرات صبح ۳ بجے ملت تشیع  اور بالخصوص گلگت بلتستان کےمومنین اپنے عزیز اور محبوب قائد سے محروم ہو گئے اور ہم سب یتیم ہو گئے ۔[1] اور اسی مناسبت سے پاکستان کے تمام شہروں بالخصوص گلگت بلتستان میں یوم سیاہ منایا گیا اور ایسی عزاداری اور ماتم داری بر پا ہوئی جو بے سابقہ تھی ۔ اسی طرح سے قم مقدس میں بھی عظیم الشان طریقے سے مراسم عزاداری اور نوحہ سرائی کا انعقاد کیا گیا ۔


[1] ۔شہداء گلگت بلتستان ،بحبت علی قیصر ، R.S پبلی کیشنز راولپنڈی

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد