۱۔شہید کی عرفانی اورمذہبی خصوصیات:

۱۔شہید کی عرفانی اورمذہبی خصوصیات:

         شہید رضوی نے ایک ایسے گھرانے میں تربیت پائی جو ناشر فرہنگ اہل بیت علیہم السلام تھا اور ان کے پدر بزرگوارہمیشہ مجالس ومحافل اور فضائل و مصائب اہلبیت میں مصروف رہتے تھے اور یہ فرزند پاک طینت اپنی بچپن ہی سے اس خاندان عصمت و طہارت سے آشنا ہو چکے تھے اور ظاہر ہے ایسی تربیت  اور ایسا انداز اپنے ساتھہ  اہلبیت اطہار کی محبت کو بطور تحفہ ساتھ لے کر آتا ہے اور شہید سید ضیاءالدین رضوی  ایک اور راستے سے اس رابطے کو مستحکم کرتے رہے اور وہ اس خاندان عصمت و طہارت کی معرفت  میں اضافہ کرنا تھا ۔آپ اس قدر اپنی ایمان ، معرفت اور خداوند تعالیٰ کے اوامر اور نواہی میں اطاعت کےسلسلے میں کوشش اور مجاہدت کرتے تھے اورحبّ فطری اور ملکوتی کواپنے وجود کے اندر روز بروز اس انداز سے اضافہ کرتے جاتے تھے کہ ہر وہ چیز جو خدا سے منسوب ہوتی تھی اس سے بھی محبت کرتے تھے ۔

ادامه مطلب ...

۲۔ مقام علمی شہید:

۲۔ مقام علمی شہید:

تاریخ کے دانشمندوں  اور مفکرین کے لئے مختلف اصطلات سے آگاہی اور کچھ الفاظ اور لغات کے بارے میں معلومات باعث افتخارنہیں رہا ہے ،ایسے افراد جنہوں نے علم کو اپنے پروردگار سے قریب ہونے کے لئے کسب کیا حقیقت میں وہی فائدے میں رہے اور تاریخ میں جاودانگی کو اپنے سر کرلیا اور ابدیت کے بلندی پر فائز ہو گئے ۔ شہید رضوی ایسے مخصوص افرد میں سے تھے کہ جنھوں نے اپنے علمی پہلو کے اندر  بلند نظری ، معرفت،تلاش وکوشش اور اخلاص کو ملا کر ایک ایسا معطرکردار اپنا لیا جو تعلیم و تہذیب کے متلاشیوں اور کاروانیان کے لئے بہتریں نمونہ عمل ہو سکتا ہے ۔

ادامه مطلب ...

۱۔تدریس:

۱۔تدریس:

           شہید نے حوزہ علمیہ قم میں تحصیل علم کے ضمن  میں  ہمیشہ تدریس  کے سلسلہ  کو جاری رکھا ۔ گلگت شہر میں ایک مدرسہ حوزوی کی تاسیس کی تھی جس میں  شہادت  تک تدریس کرتے رہے ۔ کچھ طلبہ شہید سے کسب فیض کی خاطر ان کے گھر جاتے تھے ۔اور آپ باقاعدگی سے ایک درس اپنے گھر پر پڑھایا کرتے تھے ۔

ادامه مطلب ...

۲۔ تبلیغ:

۲۔ تبلیغ:

          قم مقدس میں تحصیل کے دوران، حجۃالاسلام والمسلمین علامہ سید صفدر حسین نجفی نے شہید سید ضیاءالدین رضوی کو  تبلیغ و تدریس کے غرض سے  پرسٹن لندن اعزام کرایا تھا جہاں پر آپ نے تقریباً دو سال تبلیغ و تدریس کے  فرائض کو  انجام دیے ا ور اپنی  ماموریت کو انجام دینے کے بعد واپس پلٹ کر حوزہ تشریف لائے ۔ آپ کی بلند اور برجستہ شخصیت اور تقویٰ  کے سبب سے لندن،  کراچی اور دیگر مقامات سے تبلیغ و تدریس کے لئے تقاضا کیا گیا تھا

ادامه مطلب ...

۳۔ تِالیف:

۳۔ تِالیف:

           باوجود اسکے  کہ شھید رضوی  بہت سے مختلف محازوں پر ہمزمان مبارزہ میں مشغول تھے اوربہت سے علاقوں میں تبلیغ ، وعظ و نصیحت اور مختلف طریقوں سے لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی کرتے تھےاور مصروف ترین زندگی گزارتے تھے ۔ان مصروفیات کے باوجود آپ تحقیق اورتالیفات سے غافل نہ رہے اور انتہای قیمتی آثار،تالیف کی صورت  میں ان کی یادگارباقی ہیں جو کہ مندرجہ ذیل  ہیں ۔

ادامه مطلب ...

شہید کے زندگی کے مختلف پہلو

شہید کے زندگی کے مختلف پہلو

۱۔  فردی اوراجتماعی زندگی:

شہید سید ضیاءالدین رضوی کی  زندگی بہت ہی سادہ تھی ۔ آپ کو اپنے والد گرامی کے طرف سے ایک مختصر سی زمین میراث میں ملی تھی جب آپ ۱۹۹۰ء میں  شہر گلگت کے جامع مسجد میں امامت جمعہ اور جماعت کے فرائض انجام دینے لگے تومسجد سے کچھ نہیں لیتے تھے حالانکہ کوئی ذاتی درآمد بھی نہیں تھی اور انتہائی سادہ زندگی بسر کرتے تھے

ادامه مطلب ...

۲۔ شہید کی معاشرتی زندگی اور ان کے خدمات :

۲۔ شہید کی معاشرتی زندگی اور ان کے خدمات :

شہید مظلوم نےاپنی  پوری زندگی میں ،دنوں کو لوگوں کی خدمت میں اور راتوں کو رب کردگار کی عبادت میں گزاری   شہید مظلوم نے تمام اوقات میں ،خواہ سفر میں ہوں یا حضر میں ، تندرست ہوں یا حالت مرض میں ، آسائش میں ہوں یا تکلیف میں ، الغرض کسی بھی حالت میں اپنے پروردگار کی اطاعت میں سستی نہیں کی ۔

ادامه مطلب ...

1۔۲۔ تاسیس مراکزدینی:

1۔۲۔ تاسیس مراکزدینی:

      شھید نے گلگت ،نگر،ہنزہ ، جلال آباد ،بگروٹ اور بہت سے دیہاتوں میں نوجوانوں

 

کی دینی تعلیمات کے خاطر دینی مراکز کو قائم کیا جن

کی تعداد سینکڑوں میں ہے آپ نے ایک چار سالہ اسلامی دورہ کا آغاز کیا تھا جس میں دورس احکام ،عقائدکاور دیگر اسلامی موضوعات کو سلیبس میں رکھا تھا

ادامه مطلب ...

۲۔۲۔ تاسیس مدارس حوزوی خواھران:

۲۔۲۔ تاسیس مدارس حوزوی خواھران:

        گلگت  شہر میں  خواھران کے لئے مدرسہ( جامعۃ الزہراء) کی تاسیس کی اوراس کے علاوہ  نومل ، جلال آباد ،ہنزہ ،نگراور دیگر علاقوں میں بھی خواہران کے دینی مدارس کی سرپرستی کیا کرتے تھے  ادر معلمین کو  ماہانہ مختصر کمک مالی بھی کیا کرتے تھے ۔ ا

ادامه مطلب ...

۳۔۲۔ سرپرستی مدرسہ حوزوی برادران:

شہر گلگت میں ایک دینی مدرسے کی  سرپرستی کیا کرتے تھے اور اتنے مصروفیات کے باوجود طلبہ ایک درس کو پڑھنے کے لئے شہید کے گھر جاتےتھےاوران سے کسب فیض کیا کرتے تھے ۔اورشہید کسی صورت میں اس درس کی چھٹی نہیں کرتے تھے ۔

۴۔۲۔ وہابیوں کو مناظرےکی دعوت:

 

           شہید نے مسئلہ تحریف قرآن اوریگروضوعات پر وہابیوں کے لیڈر اور اہلسنت کے گلگت کے مرکزی جامع مسجدکے خطیب قاضی نثار کے ساتھ نامہ نویسی کے ذریعے مناظرہ کیا اوراس کو شکست دی ۔

ادامه مطلب ...

۵۔۲۔ دورو دراز علاقوںمیں روحانیوں کا تقرر اور اعزام:

          ایسے مقامات جہاں پر  علماء نہیں ہوتے تھے ،اقامہ نماز جماعت اوردیگر دینی خدمات کی انجام دہی کے لئے مبلغین کو اعزام کیا کرتے تھے اور تین ہزار روپے تک مالی  مدد بھی کیا کرتے تھے ۔ مثال کے طور پر یاسین ،کہ جہاں اسماعیلیہ حضرات کی اکثریت ہے اور شیعہ بہت ہی کم تعداد میں ہیں ،شہید نے  مکتب اہل بیت ( ع ) کی ترویج کے لئے ایک مبلغ کو معیّن کرلیا ۔ لیکن  شہید کی شہادت کے بعد یہ سلسلہ بھی منقطع ہو گیا ۔

ادامه مطلب ...

۶۔۲۔ برگزاری دروس اخلاق:

          دینی طاب علموں،عام جوانوں اور مومنین کے لئے  دروس اخلاق برگزار  کرتے تھے ۔  ہفتے میں  ایک دن جامع مسجد گلگت میں   ا ور دوسرے مقامات پر مختلف درس اخلاق  کا  اہتمام کیا کرتے تھے جس میں  بہت سے لوگ بالخصو ص نوجوانان بہت شوق اور جذبے کے ساتھ شرکت کرتے تھے ۔ اسی طرح جامع مسجد گلگت میں  بعد از ظہر اور بالخصوص گرمیوں کے چٹھیوں میں قرآن کی مختلف کلاسیں منعقد کراتے تھ

ادامه مطلب ...

۷۔۲۔ مرکزی جامع مسجد گلگت کی تعمیر:

۷۔۲۔ مرکزی جامع مسجد گلگت کی تعمیر:

         تقریباً نصف صدی پہے ضرورت محسوس کی گئی  کہ مرکزی حیثیت کی ایک مسجد تعمیر ہونی چاہیے ۔ اس سے پہلے ہر محلے میں چھوٹی چھوٹی مساجد ہوتی تھیں جہاں انفرادی طور پر لوگ نماز بجا لاتے تھے ۔ اس دوران آغا ابوالقاسم مرجع تقلید موجود تھے ۔ ان کی سرکردگی میں گلگت میں اکابرین نے صرف ایک سال کے مختصر عرصے میں  ایک جدید طرز کی جامع مسجد تعمیر کی یہ مسجد اس زمانے کے فن کی شہکار تھی اور خوبصورت ترین مساجد میں شمارکیا جاتا تھا ۔ اس مسجد نے تقریبا ۵۰ سال مومنین کے لئے اپنے اندر جگہ دی

ادامه مطلب ...

۸۔ شہادت :

 

          دانشمندان اور عظیم ہستیاں ہمیشہ حقیقت کے جلووں کا نظارہ کرتی رہتی ہیں اور ان حقائق کی طرف اپنے سفر کو جاری رکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں زندگی کا آغاز پیدائش اور زمین پر قدم رکھنا نہیں ہوتا ، بلکہ ان کی زندگی  کا  آغازاس وقت سے ہوتا ہے جب اپنی گم شدہ کی تلاش میں مقام عشق میں قدم رکھتے ہیں ، ظلمت کدہ سے خارج ہوتے ہیں اور رسالت کو اس دنیا میں حاصل کرتے ہیں۔

ادامه مطلب ...